صبحِ بے نور ’’جس کے پاس طاقت ہے وہي راجہ ہے ‘‘
زیبا نورین
پرويز الہيٰ سميت گيارہ افراد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاري جاري ہو گئے اور پھر معطل ہوگئے
سچ اور جھوٹ کيا ہے اس کي پرکھ پاکستان ميں اب مشکل نہيں بلکہ ناممکن ہے اور يہ ہے وہ حقيقت جس نے
پاکستانيوں کو ہر عمل سے لاتعلق کر ديا ہے اور اُنہيں کومہ کي اس حالت ميں بھيج ديا ہے جہاں وہ سُن سکتے ہيں سمجھ سکتے ہيں ديکھ سکتے ہيں ليکن بول نہيں سکتے ۔
سياسي نظام ميں انتقام کا مرض کوڑھ ميں بدل چکا ہے اور اب ہمارا سياسي نظام ايک بوڑھا کوڑھي ہے جس کے جسم سے خون رس رہا ہے اور زخموں پر مکھياں بھنبنا رہي ہے اور کيڑے چل رہے ہيں ۔ بدبو دار فرسودہ نظام پچھلے ساٹھ سالوں ميں صرف سلطان راہي کا گنڈاسہ ہي چلا رہا ہے ۔پي سي او کے تحت حلف اُٹھانے والي عدالتيں سياستدانوں کے اقتدار سے باہر ہونے کي صورت ميں ’’انصاف پر مبني فيصلے‘‘کرتي ہيں اوراقتدار پر فائز سياستدانوں کو روزانہ ايک فيصلہ سنا کر پچھلے تمام گناہوں سے بري قرار ديتي ہيں ۔
2005ئ کا زلزلہ ايک قيامت تھا ۔روح کو جھنجوڑ کر رکھ دينے والي قيامت کہ جب زمين پھٹي اور ديکھتے ہي ديکھتے بچوں بوڑھوں جوانوں عورتوں کو اُس اپنے اندر سميٹ ليا ۔ قيامت کے يہ مناظر ميں نے بھي اپنے کانوں سے متاثرين سے سنے جنہوں نے اپنے پياروں کو اس ہولناک تباہي ميں کھو ديا ۔لاہور کے ہسپتالوں ، ميو ہسپتال، جنرل ہسپتال، گنگا رام ہسپتال ، ڈاکٹرز ہاسپٹل، سروسز ہاسپٹل ، گلاب ديوي ہاسپٹل ہر جگہ ہر آئے دن پاکستان کے شمالي علاقوں سے آنے والے زلزلہ کے متاثرين کي آہ و فرياد تھي جو سننے والوں کو رلا رلا ديتي ايسے ميں ايک خاتون کے الفاظ آج بھي ميرے کانوں ميں گونجتے ہيں جو روتے ہوئے يہ کہہ رہي تھي کہ جو غلط کام يہ امير اور بڑے لوگ ملک کے شمالي علاقوں ميں آ کر کرتے اس کا خميازہ ہم لوگوں نے بھگتا ہے يہ لوگ تو اپنے محلوں ميں محفوظ رہے ۔ اس کے ساتھ کھڑي ايک خاتون نے کہا ايسا نہ کہو خداان کے کئے کي سزا ان معصوم لوگوں کو کيوں دے گا جو ان گناہوں ميں شامل نہ تھے جس پر اُس خاتون نے اشک بھري آنکھوں سے کہا’’ميري بات ياد رکھنا جب ہم گناہ کو ہوتے ديکھتے ہيں ظلم ہوتے ديکھتے ہيں اور خاموش رہتے ہيں تو قدرت جلال ميں آتي ہے ۔ ہمارا قصور يہ تھا کہ ان خوبصورت واديوں کو جن گناہوں کے لئے استعمال کيا جا رہا تھا اُسے ہم ميں سے بيشتر لوگ ديکھتے اور کان لپيٹ کر ادھر اُدھر ہو جاتے کہ طاقتور لوگوں کے منہ کون لگے اور ان کي حرام کاريوں کي سزا يہاں کے باسيوں نے کاٹي ہے ان کي تو خدا نے رسي دراز کي ہے ‘‘يہ خيالات اُس خاتون کے تھے جس کے بہت سے پيارے اس زلزلے کي نذر ہوگئے ۔
زلزلے کے يہ وہ خولناک دن تھے جب ہم اخبار نويس صبح ہوتے ہي ان ہسپتالوں کے چکر لگا نا شروع کرتے اور شام تک متاثرين کي آنسو بھري کہانياں اپنے اپنے اخبارات کے لئے اکٹھي کرکے لے کر آتے ۔ايسا ہي ايک دن تھا جب مجھے آفس ميں کال موصول ہوئي جو ايک سوشل ورکر کي تھي ۔ اُس نے بتايا کہ گنگا رام ہاسپٹل کا ايک ڈاکٹر کشمير کے زلزلے سے متاثرہ ايک خاندان کي نوجوان لڑکي کو ہراساں کر رہا ہے ۔ اس نے مجھے ايمرجنسي وارڈ ميں داخل اس لڑکي کا بيڈ نمبر اور نام بتايا ۔ ميں فوٹو گرافر کے ساتھ فورًا وہاں پہنچي اور اس لڑکي سے رابطہ کيا ۔ يہ اُنيس بيس سال کي بے حد خوبصورت لڑکي تھي جسکے ساتھ دوسرے بيڈ پر زخمي حالت ميں اسکي بہن اور بہنوئي بھي موجود تھے ۔ وہ بے حد خوفزدہ تھي اور ميري بار بار يقين دہاني کے بعد کہ نہ تو اسکا نام شائع ہوگا نہ تصوير ليکن وہ يہ بتائے کہ معاملہ کيا ہے ۔ لڑکي کا کہناتھا کہ وہ کئي روز سے زخمي حالت ميں يہاں پڑي ہے اور ايک ڈاکٹر جوہسپتال کي انتظاميہ سے ہے جب وہ وارڈ ميں چيکنگ کرنے کے لئے آتا ہے تو اسے جنسي طور پر ہراساں کرتا ہے اور جب ايک بار اس نے اجتجاج کيا تو اسے ہسپتال سے باہر پھينک دينے کي دھمکي دي ۔ ميں نے متعلقہ ڈاکٹر سے فون پر بات کرنے کي کوشش کي تو موصوف ايک بار بھي دستياب نہ ہوسکے ۔ موبائل فون مسلسل بند تھا ۔ ميں نے ڈاکٹر کے حوالے سے ہيلتھ رپورٹر سے معلومات ليں تو پتہ چلا کہ وہ طاقتور بيوروکريٹ کا بھائي ہے جس پر ہاتھ نہيں ڈالا جاسکتا اور اس حوالے سے جو خبر بھي بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ فائل کي اسکا حشر ہمارے ہي نيوز روم ميں بيٹھے ساتھيوں نے يہ کيا کہ زلزلے سے متعلقہ خبروں ميں دو يا تين لائنوں ميں لگا کر خانہ پري کر دي جسکا مجھے اتنا قلق ہوا اور دل ايسا اُچاٹ ہوا کہ ميں نے اُس خاتون کي خير خيريت دريافت کرنے کے لئے يا خبر کے فالو اپ کے لئے دوبارہ ہسپتال کا رُخ نہ کيا ۔
’’جس کے پاس طاقت ہے وہي راجہ ہے ‘‘يہ ہے وہ اصول جسکے گرد ہم سب کو بندر کي طرح نچايا جا رہا ہے ۔ميں نہيں جانتي کہ پرويز الہيٰ اور اسکے ساتھيوں کے جو ناقابل ضمانت وارنٹ جاري ہوئے ہيں وہ کس حد تک اسکے حقدار تھے ليکن اب تک جو کچھ ديکھا جو کچھ سنا اور پاکستان کي ساٹھ سالہ تاريخ کے بارے جو کچھ پڑھا اُسکے بعد ميرے دل و دماغ نے جو نتيجہ نکلا وہ يہي تھا’’ايک اور سياسي انتقام‘‘مسلم ليگ (ق) کو کبھي بھي پاکستاني عوام نے ايک جماعت کے طور پر قبول نہيں کيا ۔ بلاشبہ چودھري بردران نے بہت سي غلطياں بھي کيں اس کا خميازہ انہوں نے يہ بھگتا کہ آج وہ سب لوگ جنہوں نے (ق) ليگ کے پليٹ فارم سے اليکشن لڑا عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہيں ليکن جس قصے ميں چودھري پرويز الہيٰ کو دھرا گيا ہے اُس پر محض افسوس ہي کيا جا سکتا ہے ۔ کشمير کي مجبور نوجوان دوشيزاؤں کي طرف سے بعض ڈاکٹروں کو ہراساں کرنے کے واقعات جس طرح اخبارات ميں چھپ رہے تھے اسکا تقاضا تھا کہ اس وقت کي حکومت ايکشن ليتي اور اگر پرويز الہٰي کي حکومت نے ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ درج کروايا تو يہ حکومت کا فرض تھا فيصلہ کرنے کا اختيار عدالت کا تھا ۔عدالت نے اپنا فيصلہ سنايا اب اگر ڈاکٹر نے پلٹ کر وزير اعليٰ پنجاب اور ان کے ساتھيوں کے خلاف مقدمہ دائر کيا تو مزا تب تھا کہ اگر عدالت فيصلہ بھي تب سناتي جب پرويز الہيٰ کے نام کے آگے وزير اعليٰ لکھا جاتا تھا ۔ يہ کيا بات ہے کہ سر پر ٹھوکي اُس وقت لگائي جائے جب آپ کے سر پر دستار نہ ہو !
شائد ہم لوگ ہميشہ تذبذب ميں رہے اور کبھي سچ جھوٹ کا فيصلہ اپنے طور بھي نہ کر سکيں کيونکہ ہماري تاريخ کہتي ہے ’’جس کي لاٹھي اُسکي بھينس ‘‘ تو پھر کون بتائے گا کہ صحيح کيا اور غلط کيا !!!
آصف علي زرداري کے پاس اختيار ہے طاقت ہے اگر آج ہماري عدالتيں کرپشن کے پچھلے تمام الزامات ميں موصوف کو عدالت طلب کرتيں تو ہم سب تالياں بجاتے کہ ہاں يہ ہے انصاف ۔ اور آصف زرداري کو بھي بجا طور پر ’’مردِ حر‘‘ کہہ کر پکارتے ۔ليکن ہم آپ سب اس لئے ہميشہ بے يقيني کي حالت ميں ہي رہيں گے کہ ارباب رحيم وزير اعليٰ ہوگا تو وہ عوام ميں جا کر کہے گا کہ’’اگر سندھ حکومت چاہے تو زرداري کو بکري چوري کے مقدمے ميں بھي اندر کروا دے‘‘اور اقتدار آصف زرداري کے پاس آئے گا تو پچھلے آٹھ سال سے التوائ ميں پڑے مقدموں کا فيصلہ چٹکيوں ميں ہوجائے گا ۔۔۔۔ اور سب کا فيصلہ ’’باعزت بري‘‘!!
ايسا ہمارے ہي ملک ميں ہو سکتا ہے کيونکہ يہ سب پچھلے ساٹھ سالوں سے ہورہا ہے ۔
يہ ہمارا ہي ملک ہے جہاں ايوب خان نے بھٹو کي حکومت سے عليجدگي پر بھٹو کے خلاف اپني ہي زرعي زمين پر سرکاري بلڈوزروں کے استعمال اور اسلحے کے مقدمے کئے
يہ ہمارا ہي ملک ہے جہاں چودھري ظہور الہيٰ کو ذولفقار علي بھٹو کي مخالفت کرنے پر بھينسوں کي چوري کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھٹو کے ہر مخالف کے خلاف کرائم کنٹرول ايکٹ اور ڈي پي آر جيسے قوانين کي آڑ ميں انتقامي کاروائياں کي گئيں ۔
يہ ہمارا ہي ملک ہے کہ بھٹو کمزور ہوا اور عنانِ قيادت ضيائ الحق نے سنبھالا تو دست ستم کا سب سے زيادہ نشانہ بھٹو کا خاندان بنا ۔
يہ ہمارا ہي ملک ہے جہاں بے نظير بھٹو کے دور ميں پارٹي مخالف اقليتي رکن پارليمان کے خلاف سندھ ميں بيلوں کي چوري کا مقدمہ درج ہوا
يہ ہمارا ہي ملک ہے جہاں آج کے وزير اعظم اور کل کے جيل کے قيدي يوسف رضا گيلاني سے جيل ميں انکا کمپيوٹر چھين ليا گيا جس ميں انکي کتاب کا مواد تھا جو وہ لکھ رہے تھے ۔
يہ ہمارا ہي ملک ہے جہاں پرويز الہيٰ کے دور ميں سعد رفيق اور مسلم ليگ (ن) سے وابستگي رکھنے والوں کو جيلوں کي ہوا کھاني پڑي اور انہيں تشدد کا نشانہ بنايا گيا اور سعد رفيق کي اہليہ غزالہ سعد نے پريس کانفرنس ميں برملا کہا کہ ميں پرويز الہيٰ سے کہتي ہوں کہ اتنا ہي ظلم کرو جتنا کل برداشت کر سکو
يہ ہمارا ہي ملک ہے جہاں آج پرويز الہيٰ اور رفقائ کے بلا ضمانت وارنٹ جاري ہو چکے ہيں !!
کون کہتا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے سو دن ميں کچھ نہيں کيا ماسوائے دبئي اور لندن کے دوروں کے !! ہمارے حکمران ہميشہ پورے ہوم ورک کے ساتھ اقتدار ميں آئے ہيں اور اس ہوم ورک کا پہلا ٹاسک ہے ’’ سياسي حريفوں سے انتقام‘‘ اور يہ کام تو ابھي شروع ہوا ہے !! آگے آگے ديکھيں ہوتا ہے کيا
کسي نے کيا خوب بات کہي ہے کہ کسي ’’اندھے کے پاؤں تلے بٹير آجائے تو وہ خود کو بہت بڑا شکاري سمجھنے لگتا ہے ‘‘
ہمارے حکمران ہميشہ سے کمال کے شکاري ہيں جن کے لئے يہ دنيا ايک ايڈونچر ہے ليکن کيا ہوگا اس سولہ کروڑ عوام کا جن کے لئے يہ صبح کل بھي بے نور تھي اور آج بھي بے نور ہے