ابھي بھي امريکہ کي مہمان نوازي ميں کچھ کمي ہے
زیبا نورین
ايک دفعہ اکبر بادشاہ کو کسي نے بتايا کہ فلاں علاقے کے سر پنج بہت بے وقوف ہيں اور انکي حماقتوں کے باعث وہاں کي عوام کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اکبر نے بيربل کو حکم ديا کہ
جاؤ اور جا کر ديکھو کہ اس بات ميں کس حد تک صداقت ہے ۔بيربل اپنے آدميوں کے ساتھ وہاں پہنچا ۔ وہاں کے لوگوں کو علم ہوا کہ بادشاہ کے آدمي آئے ہيں تو انہوں نے بڑي آؤ بھگت کي اور قيام و طعام کا بہترين بندوبست کيا ۔دعوتيں کيں اور کوئي کسر نہ چھوڑي ۔ بيربل اسي تلاش ميں رہا کہ کوئي بے وقوفي کي بات نظر آئے تو وہ نوٹ کرے ليکن ايسا کچھ نہ ہوا ۔کچھ دن کے بعد بيربل اپنے ساتھيوں کے ہمراہ وہاں سے روانہ ہوا تو لوگوں نے انہيں تحائف سے لاد کر بھيجا ۔جب وہ لوگ چلے گئے تو اچانک گاؤں کے بوڑھے سردار کو کچھ خيال آيا اور اُس نے کھانا بنانے والے لڑکوں سے کہا کہ مجھے کھانے ميں کچھ کمي محسوس ہوئي تھي ليکن سمجھ نہيں آرہا کہ کيا کم تھا ۔ ايک نوجوان نے عرض کي جناب گرم مصالحہ نہيں تھا اس لئے جلدي ميں کھانا اسکے بغير ہي تيار ہوتا رہا ۔يہ سن کر بوڑھے سردار نے غصے سے سر پيٹ ليا اور کہنے لگا ظالمو يہ کيا ظلم کيا جب يہ لوگ بادشاہ سلامت کو يہ بات بتا ئيں گے تو گاؤں کي عزت خاک ميں مل جائے گي ۔اب گرم مصالحے کي زيادہ ساري پڑيا تيار کرو اور جلدي سے ان سب کو دے کر آؤ ۔سو گرم مصالحے کي پڑياں بنائيں گئيں اور کئي نوجوان برق رفتار گھوڑوں پر بيٹھ کر بيربل اور اس کے ساتھيوں کے پيچھے بھاگے ۔راستے ميں بيربل نے ديکھا کہ گرد اُڑ رہي ہے اور کچھ گھڑ سوار ان کي طرف آ رہے ہيں سو اس نے اپنے آدميوں کو حکم ديا کہ کچھ دير رکو کہ يہ کون لوگ ہيں جو ہماري طرف آ رہے ہيں۔ جب وہ لوگ قريب آئے تو پتہ چلا کہ يہ تو اسي گاؤں کے لوگ ہيں جہاں سے وہ ہو کر آ رہے ہيں ۔ نوجوان گھوڑوں سے اترے اور ان کے قدموں ميں گر کر معافي مانگنے لگے ۔ بيربل نے حيران ہو کر کہا کہ بھائي آپ لوگ ايسا کيوں کر رہے ہيں ؟ نوجوان کہنے لگے حضور ہم نے جو آپ کو کھانے کھلائے ان ميں گرم مصالحہ نہ تھا اور اب ہماري خواہش ہے کہ يہ گرم مصالحہ آپ اپنے ہمراہ لے جائيں ۔ بيربل قہقہ لگا کر ہنسا اور کہا نہيں اس کي ضرورت نہيں ہے ليکن نوجوان مصر رہے اور اپني ضد جاري رکھي کہ يہ انکے سردار کا حکم ہے اور وہ اس کے بنائ ٹليں گے نہيں اور نہ ہي يہ پڑياں واپس لے کر جائيں گے۔ بيربل نے جب ديکھا کہ يہ لوگ ٹلنے والے نہيں تو اس نے اپنے ساتھيوں کو اشارہ کيا ديکھتے ہي ديکھتے بيربل اور اس کے ساتھيوں نے نوجوانوں کو زميں پر گرا ليا ان کے ہاتھوں سے گرم مصالحے کي پڑياں ليں اور اِنہيں کے حلق ميں انڈيل ديں اور کہا جاؤ اب اپنے سردار سے کہو کہ گرم مصالحہ ہم نے قبول کيا ۔
اب اس تاريخي واقعے کو دہرانے کا يہ مطلب نہيں کہ اس کي کوئي مماثلت ہمارے ملک ميں کسي کردار سے پائي جاتي ہے ۔ ہر گز نہيں ليکن پھر بھي پتہ نہيں کيوں بار بار خيال اس طرف جاتا ہے کہ ہمارا ايک قافلہ بھي گرم مصالحے کي پڑياں لے کر امريکہ روانہ ہوا ہے کيونکہ نائن اليون کے بعد سے امريکي حکومتي عہدے داروں کي طرف سے جس تسلسل سے پاکستاني زمين کے پھيرے تواتر سے لگائے جارہے ہيں اس پر ہماري نومنتحب حکومت کے سر پنج محسوس کر رہے تھے کہ انکي خاطر تواضع ميں کمي رہ گئي ہے اس لئے ايک قافلہ سالار يوسف رضا گيلاني کے ہمراہ امريکہ ياترا کے لئے روانہ ہوا ہے ۔ بيربل کا واقعہ اور گاؤں کے سر پنج کي حماقت کا واقعہ تو ہمارے ملک پر آنے جانے والے حکمرانوں کے مقابل کچھ بھي نہيں ہے کيونکہ ہماري ساٹھ سالہ تاريخ تو اس سے بھي حسين واقعات سے بھري پڑي ہے اور حکمرانوں کے سنہري اقوال پر تو پوري ايک کتاب شائع کي جا سکتي ہے ۔
صرف پچھلي حکومت کے حکومتي عہدے داروں کے ذہانت پر مبني چند ايک اقوال آپ کي خدمت ميں پيش ہيں :
گذشتہ حکومت کے دور ميں ريل کا حادثہ ہو تو اس وقت کے وزير ريلوے سے کہا گيا جناب کيا آپ اس حادثے کي ذمہ داري قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفيٰ ديں گے؟
ذہانت سے بھر پور جواب ملا : ميں ريلوے کا وزير ہوں ڈرائيور نہيں جو اس ذمہ داري کو قبول کرکے استعفيٰ دے دوں !!!
اسي دور ميں وفاقي وزير برائے تعليم جاويد اشرف قاضي نے صحافيوں کے سامنے فخر سے اپنا سينہ پھلاتے ہوئے اپني تعليمي اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اب بچے سکولوں ميں ہي قران کے ’’چاليس‘‘ سپارے پڑھ ليں گے انہيں مدرسے جانے کي ضرورت ہي نہيں ۔
وصي ظفر کا ’’ ميڈيا کو لانگ آرم ‘‘ تو پاکستاني ميڈيا اور قوم کو خوب اچھي طرح ذہن نشين ہو چکا ہے ۔
پاکستاني حکمرانوں کي ’’ ذہانتوں ‘‘ کا ذکر ہو تو سر فہرست غلام محمد کے تذکرے ہوتے ہيں ۔ شہاب نامہ تو ان کي ’’ کلکاريوں ‘‘ سے بھرا پڑا ہے ۔ اس وقت ہمارا جو قافلہ امريکہ روانہ ہوا ہے اور صدر بش کے بعد جب پاکستاني وزير اعظم نے خطاب کيا’’ تو ايک بار پھر غلام محمد ياد آگئے کہ ان کے دور ميں ترکي کے وزير اعظم جلال بيار نے پاکستان کا دورہ کيا ۔وہ انگريزي زبان نہ سمجھتے تھے اور انکا ترجمان ہميشہ انکے ہمراہ ہوتا تھا ۔اب گورنر جنرل کے ڈنر کے بعد ترجمان ان دونوں کے پيچھے کرسي پر بيٹھ گيا تاکہ غلام محمد کي گفتگو کا ترکي ميں اور جلال بيار کي گفتگو کا انگريزي ميں ترجمعہ کر سکے ۔تھوڑي دير بعد وہ پسينہ پسينہ ہوگيا کيونکہ اسے غلام محمد کي کوئي بات سمجھ نہيں آ رہي تھي ۔ان سے دريافت کيا گيا کہ کيا انہيں مدد کي ضرورت ہے تو ترجمان نے کہا کہ وزير اعظم جلال نے کہا ہے کہ وہ بغير ترجمعے کے ہي ساري بات سمجھ ليں گے ۔اس کے بعد غلام محمد مسلسل بولتے رہے اور ترکي وزير اعظم کبھي آنکھيں گھما کر کبھي سر ہلا کر کبھي مسکرا کر انکي باتوں کا جواب ديتے رہے ۔کھانے کي ميز پر دو سربراہان مملکت کا ايسا طويل اور يکطرفہ مکالمہ پہلے کبھي نہيں ہوا ہوگا ۔
نائن اليون کا سانحہ ہوا اور ہم بارہ ستمبر کي صبح سو کر اٹھے تو معلوم ہوا کہ ہمارے پہلو ميں جو ملک ہے وہ دہشت گردوں کي پناہ گاہ ہے۔ وہ لوگ جو روس کے خلاف امريکہ کي جنگ ميں امريکہ کے شانہ بشانہ لڑے تو مجاہدين تھے ليکن بارہ ستمبر کي صبح ہم سب کو بتايا گيا کہ يہ ملک دہشت گردوں کي پناہ گاہ ہے۔ امريکي حکام انکا قلع قمع کرنے کے لئے پاکستان کي زمين استعمال کرتے رہے ا پھر دھيرے دھيرے ان کے قدم پاکستان کے قبائلي علاقوں کي طرف اٹھنے لگے اور اب آکر يعني2008 ميں ہمارے وزير اعظم نے انکشاف کيا کہ
’’ اگلا نائن اليون پاکستان کے سرحدي علاقوں ميں پلان کيا جا رہا ہے ‘‘
پاکستان کي تاريخ ميں ذہانت پر مبني ايسا تجزيہ پہلے کبھي کسي نے نہ کيا ہوگا ۔اس نئي نويلي پاکستاني سرکار پر يہ انکشاف بھي ہوا کہ ابھي بھي امريکہ کي مہمان نوازي ميں کچھ کمي ہے سو سرکار کا لشکر ’’گرم مصالحے‘‘ کي پڑياں لے کر مہابلي کے دربار ميں پہنچ چکا ہے اب ديکھيں اس گرم مصالحے کا کيا انجام ہوتا ہے ؟؟؟