Home About Us Back Issues Current Issues Gallery Columnist Contact Us
 
border="0"
 
   Latest News
Front Page
City News
International News
Canada Pakistan News
Editorial
Show Biz
Sports
Edition
International News
Baqia
Edition
Real Estate
   
  News Paper  
   
  State  
   
  City  
   
   
   Business Listing
   New Registration
   Login
   
 
 
 
Columnist
Akhlaq Aslam
Last Updated  :  Saturday, 12 Apr 2008

 
 
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی
اب عالمی برادری صدر مشرف کے ساتھ پانچ پیاروں کو بھی اعتماد میں لیتی ہے

 

جب صدر بش یا وزیرِاعظم گورڈن براؤن کہتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام، عالمی دہشت گردی، شمالی کوریا کی غیر ذمہ داری یا غزہ میں جاری انتہا پسندی پر عالمی برادری کو تشویش ہے تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ مڈغاسگر سے ٹرینڈاڈ ٹوباگو تک کرہ ارض پر پھیلے ہوئے دو سو سے زائد ممالک کو تشویش ہے بلکہ عالمی برادری سے مراد وہ ممالک ہوتے ہیں جو امیر ترین صنعتی ریاستوں کے جی ایٹ کلب میں شامل ہیں۔

لہٰذا جو بات ان آٹھوں کے لیے اچھی ہے وہ عالمی برادری کے لیے اچھی ہے اور جو ان آٹھ کے لیے خطرناک ہے وہ باقی دنیا کے لیے بھی خطرناک ہے۔اس فارمولے کی روشنی میں اگر آج کے پاکستان کو دیکھا جائے تو ان دنوں یہاں ایک اصطلاح فیشن میں ہے یعنی پارلیمنٹ کی بالا دستی۔ یعنی جو کچھ ہوگا پارلیمنٹ کی منظوری سے ہوگا ورنہ کچھ نہ ہوگا۔

بظاہر پارلیمنٹ کی بالادستی کا مطلب ہے فیصلہ سازی میں سولہ کروڑ عوام کی نمائندہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے چار سو بیالیس منتخب ارکان کی رائے اور بالا دستی لیکن عملاً پارلیمنٹ کی بالا دستی سے مراد یہ ہے کہ تین غیر منتخب شخصیات یعنی آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور الطاف حسین اور دو منتخب شخصیات یعنی اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمان کی رائے اور اس رائے کی بالادستی۔

اٹھارہ فروری کے بعد اگر کچھ فرق آیا ہے تو بس یہ کہ پہلے عالمی برادری کے خود ساختہ ترجمان یعنی امریکہ اور برطانیہ محض صدر پرویز مشرف سے معاملہ کرتے تھے۔ اب عالمی برادری صدر مشرف کے ساتھ ساتھ پانچ پیاروں کو بھی اعتماد میں لیتی ہے۔

جان نیگرو پونٹے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ

اس عالمی برادری کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ وزیرِ ریلوے کون بنتا ہے، وزارتِ ثقافت کس کے پاس ہے، امور کشمیر کا قلمدان کس کی میز پر ہے، سائنس و ٹیکنالوجی کا محکمہ کسے دیا گیا ہے، خزانے اور خسارے کی تجارت کی ناپ تول کس کے ذمے ہے۔ عالمی برادری کی بنیادی دلچسپی تو بس یہ ہے کہ صدر اور وزیرِاعظم کی ورکنگ ریلیشن کتنی بہتر ہے۔ وزارتِ خارجہ و داخلہ ، قومی سلامتی کے شعبے اور واشنگٹن کی پاکستانی سفارت محفوظ ہاتھوں میں ہے کہ نہیں۔ کہیں یہ ذمہ داریاں ایسے اصحاب کے حوالے تو نہیں ہیں جو گیم پلان سبوتاژ کر دیں یا لہو گرم رکھنے کی باتوں کو ایک سنجیدہ مسئلے میں تبدیل کر دیں۔

اس لحاظ سے جنابِ جان نیگروپونٹے اور جنابِ رچرڈ باؤچر نٹ بولٹ کسنے کے بعد پاکستان سے خاصے مطمئن ہو کر گئے ہیں۔ پانچ پیاروں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ عالمی برادری کو نئے سیٹ اپ سے کیا توقعات ہیں اور جمہوری کھیل کا دائرہ کتنا محدود یا غیر محدود ہے۔

رہے عوام تو انہیں مکمل مایوسی سے بچانے کے لیے سو دن کا پروگرام دے دیا گیا ہے۔ آئینی ترامیم کے ایک پیکیج سے مشروط عدلیہ کی بحالی کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہے۔ نئی جمہوری حکومت کے لیے بیرونی امداد میں اضافے کی نوید ہے اور چیف آف آرمی سٹاف کے وزیرِاعظم ہاؤس تک چل کر آنے اور عوامی رہنماؤں کو بریفنگ دینے کے عمل کو اسٹیبلشمنٹ پر جمہور کی بالادستی قرار دیا جا رہا ہے۔

میں جس علاقے میں پچھلے ایک برس سے رہ رہا ہوں وہاں کچھ کچھ فاصلے سے سبزی کی دو دوکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ میری بیوی کا اصرار ہے کہ خریداری ہمیشہ دوسری دوکان سے کی جائے کیونکہ پہلی دوکان میں سبزی اتنی تازہ نہیں ہوتی۔

پرسوں کسی نے مجھے بتایا کہ دونوں دوکانوں کا مالک ایک ہی ہے مگر یہ بات میں بیوی کو کیسے سمجھاؤں ؟؟؟؟؟؟

Prev   Next
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Home | About Us | Back Issues | Current Issues | Gallery | Time Weather | Contact Us | Make A Payment
  Copyright 2007 All Rights reserved. Sundaytimescanada.com