|
|
| |
|
| Columnist |
|
| صبحِ بے نور |
|
Last Updated : Monday, 18 Aug 2008
|
| صبحِ بے نور |
 |
| تحریر: زیبا نورین |
پرویز الہیٰ سمیت گیارہ افراد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے اور پھر معطل ہوگئے
سچ اور جھوٹ کیا ہے اس کی پرکھ پاکستان میں اب مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے اور یہ ہے وہ حقیقت جس نے پاکستانیوں کو ہر عمل سے لاتعلق کر دیا ہے اور اُنہیں کومہ کی اس حالت میں بھیج دیا ہے جہاں وہ سُن سکتے ہیں سمجھ سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں لیکن بول نہیں سکتے ۔
سیاسی نظام میں انتقام کا مرض کوڑھ میں بدل چکا ہے اور اب ہمارا سیاسی نظام ایک بوڑھا کوڑھی ہے جس کے جسم سے خون رس رہا ہے اور زخموں پر مکھیاں بھنبنا رہی ہے اور کیڑے چل رہے ہیں ۔ بدبو دار فرسودہ نظام پچھلے ساٹھ سالوں میں صرف سلطان راہی کا گنڈاسہ ہی چلا رہا ہے ۔پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والی عدالتیں سیاستدانوں کے اقتدار سے باہر ہونے کی صورت میں ”انصاف پر مبنی فیصلے“کرتی ہیں اوراقتدار پر فائز سیاستدانوں کو روزانہ ایک فیصلہ سنا کر پچھلے تمام گناہوں سے بری قرار دیتی ہیں ۔
2005ءکا زلزلہ ایک قیامت تھا ۔روح کو جھنجوڑ کر رکھ دینے والی قیامت کہ جب زمین پھٹی اور دیکھتے ہی دیکھتے بچوں بوڑھوں جوانوں عورتوں کو اُس اپنے اندر سمیٹ لیا ۔ قیامت کے یہ مناظر میں نے بھی اپنے کانوں سے متاثرین سے سنے جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس ہولناک تباہی میں کھو دیا ۔لاہور کے ہسپتالوں ، میو ہسپتال، جنرل ہسپتال، گنگا رام ہسپتال ، ڈاکٹرز ہاسپٹل، سروسز ہاسپٹل ، گلاب دیوی ہاسپٹل ہر جگہ ہر آئے دن پاکستان کے شمالی علاقوں سے آنے والے زلزلہ کے متاثرین کی آہ و فریاد تھی جو سننے والوں کو رلا رلا دیتی ایسے میں ایک خاتون کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں جو روتے ہوئے یہ کہہ رہی تھی کہ جو غلط کام یہ امیر اور بڑے لوگ ملک کے شمالی علاقوں میں آ کر کرتے اس کا خمیازہ ہم لوگوں نے بھگتا ہے یہ لوگ تو اپنے محلوں میں محفوظ رہے ۔ اس کے ساتھ کھڑی ایک خاتون نے کہا ایسا نہ کہو خداان کے کئے کی سزا ان معصوم لوگوں کو کیوں دے گا جو ان گناہوں میں شامل نہ تھے جس پر اُس خاتون نے اشک بھری آنکھوں سے کہا”میری بات یاد رکھنا جب ہم گناہ کو ہوتے دیکھتے ہیں ظلم ہوتے دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں تو قدرت جلال میں آتی ہے ۔ ہمارا قصور یہ تھا کہ ان خوبصورت وادیوں کو جن گناہوں کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا اُسے ہم میں سے بیشتر لوگ دیکھتے اور کان لپیٹ کر ادھر اُدھر ہو جاتے کہ طاقتور لوگوں کے منہ کون لگے اور ان کی حرام کاریوں کی سزا یہاں کے باسیوں نے کاٹی ہے ان کی تو خدا نے رسی دراز کی ہے “یہ خیالات اُس خاتون کے تھے جس کے بہت سے پیارے اس زلزلے کی نذر ہوگئے ۔
زلزلے کے یہ وہ خولناک دن تھے جب ہم اخبار نویس صبح ہوتے ہی ان ہسپتالوں کے چکر لگا نا شروع کرتے اور شام تک متاثرین کی آنسو بھری کہانیاں اپنے اپنے اخبارات کے لئے اکٹھی کرکے لے کر آتے ۔ایسا ہی ایک دن تھا جب مجھے آفس میں کال موصول ہوئی جو ایک سوشل ورکر کی تھی ۔ اُس نے بتایا کہ گنگا رام ہاسپٹل کا ایک ڈاکٹر کشمیر کے زلزلے سے متاثرہ ایک خاندان کی نوجوان لڑکی کو ہراساں کر رہا ہے ۔ اس نے مجھے ایمرجنسی وارڈ میں داخل اس لڑکی کا بیڈ نمبر اور نام بتایا ۔ میں فوٹو گرافر کے ساتھ فورًا وہاں پہنچی اور اس لڑکی سے رابطہ کیا ۔ یہ اُنیس بیس سال کی بے حد خوبصورت لڑکی تھی جسکے ساتھ دوسرے بیڈ پر زخمی حالت میں اسکی بہن اور بہنوئی بھی موجود تھے ۔ وہ بے حد خوفزدہ تھی اور میری بار بار یقین دہانی کے بعد کہ نہ تو اسکا نام شائع ہوگا نہ تصویر لیکن وہ یہ بتائے کہ معاملہ کیا ہے ۔ لڑکی کا کہناتھا کہ وہ کئی روز سے زخمی حالت میں یہاں پڑی ہے اور ایک ڈاکٹر جوہسپتال کی انتظامیہ سے ہے جب وہ وارڈ میں چیکنگ کرنے کے لئے آتا ہے تو اسے جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے اور جب ایک بار اس نے اجتجاج کیا تو اسے ہسپتال سے باہر پھینک دینے کی دھمکی دی ۔ میں نے متعلقہ ڈاکٹر سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تو موصوف ایک بار بھی دستیاب نہ ہوسکے ۔ موبائل فون مسلسل بند تھا ۔ میں نے ڈاکٹر کے حوالے سے ہیلتھ رپورٹر سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ وہ طاقتور بیوروکریٹ کا بھائی ہے جس پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا اور اس حوالے سے جو خبر بھی بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ فائل کی اسکا حشر ہمارے ہی نیوز روم میں بیٹھے ساتھیوں نے یہ کیا کہ زلزلے سے متعلقہ خبروں میں دو یا تین لائنوں میں لگا کر خانہ پری کر دی جسکا مجھے اتنا قلق ہوا اور دل ایسا اُچاٹ ہوا کہ میں نے اُس خاتون کی خیر خیریت دریافت کرنے کے لئے یا خبر کے فالو اپ کے لئے دوبارہ ہسپتال کا رُخ نہ کیا ۔
”جس کے پاس طاقت ہے وہی راجہ ہے “یہ ہے وہ اصول جسکے گرد ہم سب کو بندر کی طرح نچایا جا رہا ہے ۔میں نہیں جانتی کہ پرویز الہیٰ اور اسکے ساتھیوں کے جو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں وہ کس حد تک اسکے حقدار تھے لیکن اب تک جو کچھ دیکھا جو کچھ سنا اور پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ کے بارے جو کچھ پڑھا اُسکے بعد میرے دل و دماغ نے جو نتیجہ نکلا وہ یہی تھا”ایک اور سیاسی انتقام“مسلم لیگ (ق) کو کبھی بھی پاکستانی عوام نے ایک جماعت کے طور پر قبول نہیں کیا ۔ بلاشبہ چودھری بردران نے بہت سی غلطیاں بھی کیں اس کا خمیازہ انہوں نے یہ بھگتا کہ آج وہ سب لوگ جنہوں نے (ق) لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں لیکن جس قصے میں چودھری پرویز الہیٰ کو دھرا گیا ہے اُس پر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ کشمیر کی مجبور نوجوان دوشیزاﺅں کی طرف سے بعض ڈاکٹروں کو ہراساں کرنے کے واقعات جس طرح اخبارات میں چھپ رہے تھے اسکا تقاضا تھا کہ اس وقت کی حکومت ایکشن لیتی اور اگر پرویز الہٰی کی حکومت نے ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ درج کروایا تو یہ حکومت کا فرض تھا فیصلہ کرنے کا اختیار عدالت کا تھا ۔عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا اب اگر ڈاکٹر نے پلٹ کر وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا تو مزا تب تھا کہ اگر عدالت فیصلہ بھی تب سناتی جب پرویز الہیٰ کے نام کے آگے وزیر اعلیٰ لکھا جاتا تھا ۔ یہ کیا بات ہے کہ سر پر ٹھوکی اُس وقت لگائی جائے جب آپ کے سر پر دستار نہ ہو !
شائد ہم لوگ ہمیشہ تذبذب میں رہے اور کبھی سچ جھوٹ کا فیصلہ اپنے طور بھی نہ کر سکیں کیونکہ ہماری تاریخ کہتی ہے ”جس کی لاٹھی اُسکی بھینس “ تو پھر کون بتائے گا کہ صحیح کیا اور غلط کیا !!!
آصف علی زرداری کے پاس اختیار ہے طاقت ہے اگر آج ہماری عدالتیں کرپشن کے پچھلے تمام الزامات میں موصوف کو عدالت طلب کرتیں تو ہم سب تالیاں بجاتے کہ ہاں یہ ہے انصاف ۔ اور آصف زرداری کو بھی بجا طور پر ”مردِ حر“ کہہ کر پکارتے ۔لیکن ہم آپ سب اس لئے ہمیشہ بے یقینی کی حالت میں ہی رہیں گے کہ ارباب رحیم وزیر اعلیٰ ہوگا تو وہ عوام میں جا کر کہے گا کہ©©”اگر سندھ حکومت چاہے تو زرداری کو بکری چوری کے مقدمے میں بھی اندر کروا دے“اور اقتدار آصف زرداری کے پاس آئے گا تو پچھلے آٹھ سال سے التواءمیں پڑے مقدموں کا فیصلہ چٹکیوں میں ہوجائے گا ۔۔۔۔ اور سب کا فیصلہ ”باعزت بری“!!
ایسا ہمارے ہی ملک میں ہو سکتا ہے کیونکہ یہ سب پچھلے ساٹھ سالوں سے ہورہا ہے ۔
یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں ایوب خان نے بھٹو کی حکومت سے علیجدگی پر بھٹو کے خلاف اپنی ہی زرعی زمین پر سرکاری بلڈوزروں کے استعمال اور اسلحے کے مقدمے کئے
یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں چودھری ظہور الہیٰ کو ذولفقار علی بھٹو کی مخالفت کرنے پر بھینسوں کی چوری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھٹو کے ہر مخالف کے خلاف کرائم کنٹرول ایکٹ اور ڈی پی آر جیسے قوانین کی آڑ میں انتقامی کاروائیاں کی گئیں ۔
یہ ہمارا ہی ملک ہے کہ بھٹو کمزور ہوا اور عنانِ قیادت ضیاءالحق نے سنبھالا تو دست ستم کا سب سے زیادہ نشانہ بھٹو کا خاندان بنا ۔
یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں بے نظیر بھٹو کے دور میں پارٹی مخالف اقلیتی رکن پارلیمان کے خلاف سندھ میں بیلوں کی چوری کا مقدمہ درج ہوا
یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں آج کے وزیر اعظم اور کل کے جیل کے قیدی یوسف رضا گیلانی سے جیل میں انکا کمپیوٹر چھین لیا گیا جس میں انکی کتاب کا مواد تھا جو وہ لکھ رہے تھے ۔
یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں پرویز الہیٰ کے دور میں سعد رفیق اور مسلم لیگ (ن) سے وابستگی رکھنے والوں کو جیلوں کی ہوا کھانی پڑی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سعد رفیق کی اہلیہ غزالہ سعد نے پریس کانفرنس میں برملا کہا کہ میں پرویز الہیٰ سے کہتی ہوں کہ اتنا ہی ظلم کرو جتنا کل برداشت کر سکو
یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں آج پرویز الہیٰ اور رفقاءکے بلا ضمانت وارنٹ جاری ہو چکے ہیں !!
کون کہتا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے سو دن میں کچھ نہیں کیا ماسوائے دبئی اور لندن کے دوروں کے !! ہمارے حکمران ہمیشہ پورے ہوم ورک کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں اور اس ہوم ورک کا پہلا ٹاسک ہے ” سیاسی حریفوں سے انتقام“ اور یہ کام تو ابھی شروع ہوا ہے !! آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا
کسی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ کسی ”اندھے کے پاﺅں تلے بٹیر آجائے تو وہ خود کو بہت بڑا شکاری سمجھنے لگتا ہے “
ہمارے حکمران ہمیشہ سے کمال کے شکاری ہیں جن کے لئے یہ دنیا ایک ایڈونچر ہے لیکن کیا ہوگا اس سولہ کروڑ عوام کا جن کے لئے یہ صبح کل
بھی بے نور تھی اور آج بھی بے نور ہے !! |
|
| |
| |
|
| |
| |
| |
| |
| |
| |
| |
|
|
|
|