Home About Us Back Issues Current Issues Gallery Columnist Contact Us
 
border="0"
 
   Latest News
Front Page
City News
International News
Canada Pakistan News
Editorial
Show Biz
Sports
Edition
International News
Baqia
Edition
Real Estate
   
  News Paper  
   
  State  
   
  City  
   
   
   Business Listing
   New Registration
   Login
   
 
 
 
Columnist
میں “ سے” ہم“ کا سفر
Last Updated  :  Monday, 18 Aug 2008
میں “ سے” ہم“ کا سفر
تحریر: زیبا نورین
میں ایک معروف شاپنگ سنٹرکے کاونٹر پر کھڑی تھی کہ جو کچھ خریدا تھا اُسکی ادائیگی کر سکوں کہ اچانک کوئی چیز میری کہنی سے ٹکرائی ۔ اس دوران جو پہلا خیال میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ ابھی مجھے عقب سےsorry are you ok? کی آواز سنائی دے گی ۔لیکن جب ایساکچھ نہیں ہوا تو میں نے پلٹ کردیکھا ۔ میرے بالکل پیچھے شلوار قمیض دوپٹہ لئے ایک پاکستانی خاتون کھڑی تھی ۔ اُس کے چہرے پر نہ تو شرمندگی تھی نہ ہونٹوں پرمسکراہٹ نہ لبوں پر سوری کا کوئی لفظ ۔ میں نے ایک بار پھر اپنی کہنی پکڑے اُسکی طرف مڑ کر دیکھا کہ شائد اُسے کوئی احساس ہو کہ اُس نے کیا کیا ہے لیکن وہاں تو صرف ایک سپاٹ چہرہ تھا اور میری طرف سے کسی بھی سوال سے بچنے کے لئے اُس نے فوراً نظریں دوسری طرف پھیر لیں۔ میں نے مایوسی سے سر ہلایا اور اپنے بل کی ادائیگی کی اور ایک بار پھر اُس خاتون پر نظر ڈالی اور اپنی راہ لی۔
یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا تو ایسے اچنبھے کی بات نہ تھی کیونکہ اپنی غلطی پر وہاں سوری کرنا اپنے گلے میں عذاب ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے ( معذرت کے ساتھ) لیکن حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اس لئے گلی گلی چوراہے میں لوگ ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُلجھتے نظر آتے ہیں لیکن سوری کہنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ کینیڈا میں یہ سب کچھ اس لئے عجیب لگتا ہے کہ یہاں آکر ہر کمیونٹی کے طور اطوار بدل جاتے ہیں اور لوگ یہاں کے سسٹم کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سوری ایکسکیوز می تھینک یو ٹائپ کا معاشرہ ہے ۔ جہاں انسانی اقدار کو بے حد عزت و احترام حاصل ہے ۔زندگی بہت تیز رفتار ہے لیکن لوگ ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے نکلنے کے قائل نہیں ہیں ۔ ہر کسی کی ترجیح دوسرے کو پہلے راستہ دینا ہے ۔اختلاف رائے بھی ہے لیکن اظہار سے قبل ایکسکیوز می کہا جاتا ہے اور ڈائیلاگ سے ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بد قسمتی سے کینیڈا میں سا لہا سال گذارنے والے پاکستانی دیگر کمیونٹیز کے ساتھ تو ہر طرح کی تمیز کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جب اپنے ہی ساتھی پاکستانیوں کے سامنے آتے ہیں تو ان کا وہی سٹائل واپس آجاتا ہے جس کے وہ پاکستان میں عادی چلے آ رہے ہیں ۔ریڈیو ٹی وی اور میڈیا پر جب بھی انہیں موقع ملتا ہے یہ زبان سے زہریلے نشتر پھینکنے سے باز نہیں آتے ۔یہ سب کا نہیں لیکن اکثریتی رویہ ہے ۔
بدھ کے روز عدنان ہاشمی کے مقبول ریڈیو پروگرام کا موضوع تھا کہ ” کیا کینیڈا میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ونگ کوئی اہمت رکھتے ہیں “ آن لائن بے شمار کالرز نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ بعض لوگوں نے اس کی حمایت اور بعض لوگوں نے اس کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ ہمیں پاکستان کی بجائے یہاں کی جماعتوں میں اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیئے ۔ یقیناً دونوں اطراف سے دئے گئے دلائل میں وزن تھا ۔ جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو میں نے اس حوالے سے یہ کہا کہ ” یہ دنیا گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور دنیا کا کوئی ایسا کونہ نہیں جہاں پاکستانی آباد نہ ہوں اور اس بات کو آپ نے کینیڈا میں بھی محسوس کیا ہوگا کہ جب بھی کہیں دو پاکستانی اکٹھے ہوتے ہیں انکا موضوع پاکستان اور پاکستان کی سیاست ہوتی ہے اسی لئے یہاں پر کمیونٹی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پاکستانی موضوعات پر بات کرنے پر مجبور ہے ۔ پاکستان کے لئے پاکستانیوں محبت کا یہ عالم ہے کہ یہ ہمہ وقت وہاں ہونے والے واقعات سے آگاہ رہنا چاہتے ہیں اور وہاں کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ جہاں تک پاکستانی سیاسی جماعتوں کے کینیڈا میں ونگ بنانے کا تعلق ہے تو عملی طور پر تو ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن ان کو پاکستان کے لئے فلاحی منصوبوں کے لئے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہمیشہ ہر مشکل وقت میں پاکستان کے کام آتے رہے ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کمیونٹی کی صفوں میں اتحاد پیدا کیا جائے اور کچھ ایسی کالی بھیڑیں جو آگے بڑھنے والوں کے خلاف سازشوں کے جال بُنتی ہیں اُن کی نشاندہی کی جائے اور انکا احتساب کیا جائے ۔ یہ سب کام ان سیاسی ونگز کے پلیٹ فارم سے بخوبی کئے جا سکتے ہیں لیکن سوال ایک بار پھر وہی آجاتا ہے کہ اگر یہ لوگ نااہل ہیں اور ان سیاسی جماعتوں کے نام کو پیسہ بٹورنے کے لئے استعمال کرتے ہیں یا لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں اور انکی سیاسی ہمدردیوں اور جذبات سے کھلواڑ کر رہے ہیں تو پھر ان ونگز کو ہرگز سپورٹ نہ کریں ۔ ان کی سیاست آپ اپنی موت مر جائے گی لیکن اگر یہ بیرونِ ملک پاکستان کا امیج بہتر بناتے ہیں اور یہاں پر مقیم پاکستانیوں کے لئے سماجی خدمت کا دائرہ کار وسیع کرتے ہیں تو پھر ان کو وسیع کرنا چاہئے ۔
یہاں بیٹھ کر بھی ہم پاکستانی پاکستان کی بات کرتے ہیں اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہماری مجبوری ہے وہ مجبوری جس سے ہم کہیں بھی بھاگ نہیں سکتے اور اپنے اپنے انداز میں اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔اور اگر یہ سب کرتے ہوئے پاکستانی کینیڈا کی سیاست میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں تو یہ فخر کی بات ہے کہ اگر کوئی یہ صلاحیت رکھتا ہے تو پوری کمیونٹی ایک جان ہو کر اس کے پیچھے کھڑی ہوجائے اور ایسا نہ ہوکہ ذاتی حسد اور عناد میں اس کی بھی ٹانگ کھینچنے لگیں ۔ اختلاف رائے کسی سے بھی ہو لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ہم سب اپنے اپنے انداز میں اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں اور اگر ہم یہاں بیٹھ کر پاکستانی معاشرے کی برائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم پاکستان کے خلاف ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی اندھی حمایت کر رہے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہم اس معاشرے کی اچھائیوں کو نمایاں کرکے اپنے ہم وطنوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ کیا یہ سب خوبیاں ہمارے اندر پیدا نہیں ہو سکتی ہیں ؟
یہاں کا ڈسپلن اور قانون کے لئے عقیدت دیکھ کر ہمارے دلوں میں آہ کا اُٹھنا فطری امر ہے کہ یہاں کا سسٹم بنانے والے سیاستدان بھی انسان ہیں اگر یہ انسانی جبلت کو قابو کر کے انہیں قانون کا احترام کرنا سکھا سکتے ہیں تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ؟؟؟ہمارے سیاست دان اس اہلیت سے محروم کیوں ہیں ؟
ابھی کچھ دن پہلے آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ ” میں نہیں سمجھتا کہ ملک ٹوٹنے کے بعد مجھے زمیں کا کہیں ایک ٹکڑا بھی ملے گا “ کاش اس جملے میں چھپی سچائی کو آصف زرداری سمیت ہر سیاستدان اور ہر پاکستانی پوری صداقت اور حقائق کے ساتھ تسلیم کرے اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہوئے شیخ سعدی کے اس قول کو ضرور نظر میں رکھیں کہ ” انسان کی عزت اسکی دولت سے نہیں اسکے علم اور شرافت سے ہوتی ہے ©“ایسا کچھ سوچ لیا جائے تو پھر کمیونٹی ”میں“ سے ”ہم“ کا سفر پلک جھپکتے میں طے کر لے گی ۔
Prev   Next
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Home | About Us | Back Issues | Current Issues | Gallery | Time Weather | Contact Us | Make A Payment
  Copyright 2007 All Rights reserved. Sundaytimescanada.com