”آزادی گھوڑے پر چڑھ کر آئے یا گدھے پر اس کا خواب دیکھنا ہر انسان کا پیدائشی حق ہے “یہ تاریخی جملہ جسٹس ایم آر کیانی نے انگریزوں کی حکومت میں اُس وقت اپنے فیصلے میں لکھا تھاجب وہ سیشن جج تھے اور اُن کے سامنے ایک گرفتار نوجوان کو پیش کیا گیاتھا جس پر الزام تھا کہ وہ ہر کسی کویہ بتاتا پھرتاہے کہ اس نے خواب دیکھا کہ آزادی گھوڑے پر چڑھ کر ہندوستان کی طرف بھاگی چلی آ رہی ہے ۔
ہم کروڑوں خوش قسمت پاکستانی ایک آزاد خود مختار ریاست میں پیدا ہوئے ہیں اس لئے غلامی اور آزادی کے لفظوں کی روح کو سمجھنے کے لئے ہمیں اپنی تاریخ کی کتابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے یا یہ سمجھنے کے لئے کہ انسانی سانسوں کے لئے لفظ آزادی کا مطلب کیا ہے ہم 30 سال قبل شائع ہونے والے الیگزینڈر ہیلے کے شہرہ آفاق ناول Roots کا ایک بار نہیں کئی کئی بار مطالعہ کرتے ہیں ۔یہ ناول مصنف کے آباﺅ اجداد کی زندگیوں کی کہانی ہے جو وہ نسل در نسل منتقل کرتے رہے کہ کس طرح سترھویں صدی میں گورے کالوں کو افریقہ سے غلام بنا کر لاتے اور ان کی خرید و فروخت کے لئے جانوروں کی طرح باقاعدہ منڈی سجائی جاتی۔ ناول کا مرکزی کردار kunta kinte ہے جسکا نام اسے غلام بنانے کے بعد بدل کر ٹوبی رکھ دیا جاتا ہے ۔ اس کے اند رمچلنے والی آزادی کی بغاوت کو کچلنے کے لئے اُسے ایک درخت سے لٹکا کر جب کوڑے مارے جاتے ہیں اور اُسکا گورا مالک اُسے کہتا ہے کہ
whats your name? تودرد سے کراہتا ہوا یہ نوجوان کہتا ہے kunta kinte یہ سن کر گورا مالک اور اشتعال میں آتا ہے نوجوان پر اور شدت سے کوڑے برسائے جاتے ہیں لیکن ہر بار نام پوچھنے پر وہ وہی نام دہراتا ہے جو اسکے ماں باپ نے اس وقت رکھا جب اس نے آزاد فضاﺅں میں جنم لیاتھا ۔ کوڑے جب اس کو بالکل ہوش سے بیگانہ کر دیتے ہیں تو اس بے ہوشی میں وہ اپنا نام پوچھنے پر کہتا ہے ”ٹوبی !!!مائی نیم از ٹوبی“ یہ سن کر گورا مالک فاتحانہ انداز سے مسکراتا ہے اور چلا جاتا ہے ۔ نیم مردہ نوجوان کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے ادھیڑ عمر کالا آگے بڑھتا ہے اور آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ بڑبڑاتا ہے There will be another day
14 اگست1947سے قبل برصغیرکے مسلمانوں نے بھی ہر مشق ستم کا نشانہ بننے کے بعد جاگتی سوتی آنکھوں میں صرف یہ خواب ہی دیکھا کہ آزادی برق رفتاری سے ان کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہ صبح طلوع ہونے ہی والی ہے جس کے لئے وہ کیا کچھ نہیں لٹا چکے تھے۔
14اگست1947کی رات جب لاہور سٹیشن سے پاکستان براڈ کاسٹنگ کی نئی شناختی دُھن بجائی گئی
ظہور آزر نے انگریزی میں اعلان کیا کہ ” گجر بجتے ہی پاکستان کی آزاد ریاست وجود میں آجائے گی “
مصطفےٰ علی ہمدانی نے اُردو میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”اسلام و علیکم !پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ! ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔ پروگرام سنیئے طلوع صبح آزادی“
توہر طرف نعرہ تکبیر بلند ہوا ۔آزادی کے لئے بہت کچھ لٹا دینے والوں نے ہر دکھ درد کو بھلا کر اپنی مٹی پر سجدے کئے اور اسے ایک بار نہیں کئی کئی بار ُچوما
سب کی شناخت ایک تھی منزل ایک جذبہ ایک
نہ کوئی پنجابی تھا
نہ کوئی سندھی تھا
نہ کوئی پٹھان تھا
نہ سرائیکی تھا
نہ کوئی مہاجر تھا
1947 میں یہ قائد اعظم کا پاکستان تھا اور ہم سب پاکستانی تھے
2008ءکا 61 سالہ پختہ عمر کا پاکستان اب قائداعظم کا پاکستان نہیں رہا بلکہ اس کا نام بدل دیا گیا ہے ۔ اسکے پہلو میں جو ممالک ہیں وہ اسے ”ملا اور جنونیوں کا پاکستان“ کہتے ہیں ۔ سپر پاور ہونے کا دعویٰ کرنے والا ملک اسے” دہشت گردوں کا پاکستان “ کہتا ہے اور دنیا کے لئے اس کی تائید کرنا مجبوری ہے اس لئے کوئی اسے ”دُنیا کا خطرناک ترین ملک “ کا نام بھی دیتاہے جسکے پہلو میں طالبان پناہ لئے بیٹھے ہیں اور طالبان کمانڈر ایک امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے وہی کچھ کہتا ہے جو امریکہ سننا چاہتا ہے ” پاکستان ہمارے لئے اُس کندھے کی مانند ہے جس پر ہم گرینڈ بم پھینکنے کے لئے اپنا راکٹ لانچر رکھتے ہیں ۔ پاکستان کے بناءہم لڑ نہیں سکتے اورخدا کا شکر ہے کہ پاکستان ہمارے خلاف نہیں “
جہاں تک پاکستانیوں کا تعلق ہے تو اکسٹھ سال کے اس سفر میں پوری کی پوری قوم کی نفسیات ہی بدل دی گئی ہے !
جب یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا آزادی کی طویل اعصاب شکن جنگ کے بعدیہاں کی آزاد معطر فضاﺅں میں سانس لے کر ان ہواﺅں کو اپنی روح میں اتار رہے تھے تو کسی نے تصور بھی نہ کیا تھاکہ وہ وقت بھی آئے گا کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک میں غربت بھوک افلاس کا راج ہوگا ۔ جہاں حکومت ” ایک شخص ایک آٹے کا تھیلا“ کا مژدہ سنائے گی لیکن اُس کے حصول کے لئے بھی آنکھیں پتھرا جائیں گی ۔جہاں انتقام کی آگ میں سلگنے والے حریف گھرانے کی بے گناہ عورتوں کو عریاں گھمائیں گے ، جہاں ظلم اتنا ہوگا کہ ہر مختار بی بی کو” امریکہ،برطانیہ“ انصاف نہیں دے سکیں گے اور جہاں قانون کا نام صرف تماشا ہوگا ۔جہاں تھانوں میں شکایت کرنے والوں کی چھترول اور مجرموں کو قانون کی چھتری کا سایہ میسر ہوگا ۔جہاں پولیس اپنے حق کے لئے اجتجاج کرنے والے شہریوں پر گولی چلائے گی اور مسجد کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دے کر اس پر راکٹ لانچر چلائے جائیں گے۔ جہاں وکیل نہیں جج خریدو کا جملہ لطیفے کی طرح سنا کر قہقہے لگائے جائیںگے۔ جہاں نوجوان ”پاکستان سے زندہ بھاگ“ کا نعرہ لگا کر ہر جائز ناجائز طریقے سے ملک سے فرار چاہیں گے اور کوئی حکومت اس” برین ڈرین “کے آگے پُل باندھنے کی کوشش نہیں کریگی۔
بے شک
1947 کو آزادی کا جشن منانے والے اور قومی دُھنوں پر رقص کرنے والے کسی پاکستانی نے ایسے پاکستان کا خواب میں بھی تصور نہ کیا تھا کیونکہ ان آنکھوں میں صرف ”اس ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا خواب “ تھا لیکن دو آنکھیں ایسی ضرور تھیں جو بہت دور کچھ تلاش کر رہی تھیں یہ ٓا نکھیں جناح صاحب کی آنکھیں تھیں وہی جناح جو ایک دن بھی جیل نہیں گئے لیکن بقول شخصے انہوں نے ایک بے انتہاءذہین وکیل کی طرح اپنا کیس جیت لیا تھا !!!
لیکن دنیا کی تاریخ کا منفرد اور انوکھا مقدمہ جیت کر اُنکی دور اندیش آنکھوں نے آخر ایسا کیا دیکھ لیا تھا کہ وہ کہے بناءنہ رہ سکے کہ
’ میں نہیں جانتا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں “
کچھ شک نہیں کہ 1947سے2008 کے سفر کی کہانی کا عنوان یہی جملہ ہے !!!